سبق 1: اخلاقِ حسنہ - مصنّف (سید سلیمان ندوی)
سید سلیمان ندوی کا تعارف
سید سلیمان ندوی ضلع پٹنہ (انڈیا) کے ایک گاؤں دینہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام سید ابوالحسن تھا۔ تعلیم دار العلوم ندوة العلما اعظم گڑھ، جسے علامہ شبلی نعمانی (۰۱۸۵۷-۱۹۱۴ء) نے قائم کیا تھا، سے حاصل کی پھر اسی ادارے سے وابستہ ہوئے اور علامہ شبلی نعمانی کے خاص شاگردوں میں شامل ہو گئے ـ انھوں نے سیرت ، سوانح ، دین، اسلام اور زبان وادب کے موضوعات پر تحقیقی کام کیا۔ حکومت پاکستان نے اُن کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں نشان سپاس پیش کیا۔ کراچی میں انتقال کیا۔ ان کی آخری آرام گاہ اسلامیہ کالج کراچی کے عقبی احاطے میں واقع ہے۔ سید سلیمان ندوی کی تصانیف میں : " خطبات مدراس ، عرب و ہند کے تعلقات عربوں کی جہاز رانی سیرت عائشہ حیات شبلی، نقوش سلیمانی اور رحمت عالم شامل ہیں ۔ شامل کتاب اقتباس ان کی تصنیف " رحمت عالم سے مستعار ہے جس میں نبی کریم خالد المین ﷺ کے اسوہ حسنہ پر رونی ڈالی گئی ہے۔
اخلاقِ حسنہ کا مرکزی خیال
ہمارے نبی خاتم النبیين ﷺ کے اخلاق بہت بلند ہیں ۔ آپ خاتم النبیین ﷺ کی مہمان نوازی ، رحم دلی، فیاضی ، انصاف پسندی ، بھائی چارہ اور دوسروں کی مدد آپ ﷺ کے اخلاق کی نمایاں خوبیاں تھیں ۔ آپ خاتم النبیین ﷺ کی زندگی سے سادگی ، مساوات ، خدا کی یاد، حوصلہ، عزم و استقلال اور شجاعت کا سبق ملتا ہے ۔ آپ خاتم النبیین ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے ہی حقیقی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور اسی سے بہتر معاشرہ قائم ہوسکتا ہے ۔
اخلاقِ حسنہ کا خلاصہ
سید سلیمان ندوی ہمارے پیارے نبی خاتم النبیين ﷺ کے اخلاق حسنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھنے پر نبی خاتم النبیين ﷺ کے اخلاق کو قرآن کی عملی تفسیر قرار دیاـ رسول پاکﷺ بہت ہی ملنسار اور مہربانی فرمانے والے تھے۔ جودوسخا آپ ﷺ کی شخصیت کا اہم خاصہ تھا۔ سوالی کو کبھی "نہ" نہ فرمایا۔ ایک مرتبہ ایک صحابی کی شادی تھی جو آپ سرکار ﷺ کی بارگاہ میں امداد کے لئے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان کو ایک آٹے کی ٹوکری دلوائی۔ دنیا سے لا تعلقی کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی اپنے پاس کچھ نقد نہ رکھتے ایک بار فدک کے رئیس نے غلہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں بھجوایا تو آپ ﷺ نے جب تک وہ غلہ تقسیم نہ کر لیا گھر تشریف نہ لے گئے۔ نبی خاتم النبیين ﷺ بہت مہمان نواز تھے خود فاقہ فرما لیتے لیکن مہمان کی حتی الامکان خدمت کرتے ۔ گھر کے تمام کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے، مثلاً پھٹے ہوئے جوتے کو گانٹھنا، بکریوں کا دودھ دوہنا، وغیرہ۔ مجمع میں نمایاں ہو کر نہ بیٹھتے غزوہ خندق کے موقع پر سب کے ساتھ مل کر کھدائی کا کام کیا۔ غریبوں کے ساتھ اس طرح سلوک فرماتے کہ ان کو عار محسوس نہ ہوتی۔ آپ ﷺ مظلوموں کی فریاد سنتے، کمزوروں پر رحم فرماتے، مرنے والے مسلمانوں کا قرضہ ادا فرماتے، بیمار کی تیمار داری فرماتے، گنہگاروں کو معاف فرما دیتے، دشمنوں کے لیے بھی دعائے خیر فرماتے، بیوہ، مسکین کوئی بھی ضرورت مند سب کی ضروریات پوری فرماتے اور ہمسایوں کی خبر گیری کرتے رہتے۔ آپ سرکار ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ شخص مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ دوسروں کے کام کرنے میں شرم محسوس نہ فرماتے۔ بچوں سے بہت پیار سے پیش آتے۔ کسی بھی موسم کا نیا پھل بچوں کو پہلے دیتے۔ بچوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے۔ نبی خاتم النبیين ﷺ نے عورتوں پر خصوصی احسان فرمایا اور ان کو معاشرے میں عزت اور ہمدردی کے لائق بنایا۔ عورتیں بھی بلا جھجک نبی خاتم النبیين ﷺ سے اپنے مسائل پوچھتی لیکن آپ سرکار ﷺ برا نہ مناتے۔ آپ ﷺ ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ جانوروں سے زیادتی کو بھی برداشت نہ کرتے۔اپ ﷺ امیر غریب سب کو برابر سمجھتے۔ قانون کے نفاذ میں بھی آپ ﷺ مساوات کے قائل تھے۔ آپ ﷺ کی بارگاہ میں ایک دفعہ ایک عالی خاندان کی خاتون کے جرم کی سزا کی تخفیف کے حوالے سفارش کی گئی۔ تو آپ ﷺ کو سخت ناگوار گزرا۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے کوئی زیادتی نہیں کی۔ بے شمار غزوات میں حصہ لیا لیکن آپ ﷺ نے کبھی کسی پر تلوار نہ اٹھائی۔ بہادری اور بے خونی کا یہ عالم تھا کہ شدید جنگ میں لڑائی میں بھی پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہتے۔ اور اس کی گواہی آپ ﷺ کے شدید دشمن اور آپ ﷺ کے ذاتی غلام بھی دیتے ہیں۔ اسلام پر کافی آزمائشیں آئیں ایک صحابی نے آپ ﷺ کی مدد کےلیے لوگوں سے گزارش کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بہت زیادہ ظلم و ستم کیے گئے لیکن کوئی بھی تکلیف ان کو حق کے راستے سے نہ پھیر سکی۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ یہ دین سب کی تحفظ کی ضمانت بن جائے گا۔ آپ ﷺ کا عزم و استقلال اس حد تک تھا کہ جناب ابو طالب کو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اگر قریش میرے دائیں ہاتھ میں سورج بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دیں تب بھی میں اعلان حق سے باز نہ آؤں گا۔ فقر اور دنیا کی بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک بھوکے نے آکر آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی تو آپ ﷺ نے ازواج مطہرات سے کھانے کا معلوم کیا تو علم ہوا کہ کسی کے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ ﷺ بھوک کے عالم میں جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو لے کر جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کی شاندار ضیافت کی اور اس ضیافت میں سے تھوڑا سا کھانا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بھی بھجوایا۔ آپ ﷺ کا جب وصال ظاہری ہوا تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔ آپ ﷺ کا مزاج مبارک بہت سادہ تھا پہننے، اوڑھنے اور بیٹھنے میں سادگی پسند فرماتے۔ صفائی کا خصوصی خیال فرماتے۔ گفتگو ایسی واضح اور فصیح ہوتی تھی کہ ہر فقرہ الگ الگ ہوتا۔ شگفتہ مزاجی بھی آپ ﷺ کی سیرت کا ایک اہم پہلو ہے ایک بڑھیا نے آپ ﷺ سے گزارش کی کہ یارسول اللہ ﷺ دعا کریں کہ اللہ مجھے جنت عطا فرمائے تو آپ ﷺ نے کہا کہ بڑھیاں جنت میں نہیں جائیں گی۔ جب وہ پریشان واپس گئی تو آپ ﷺ نے کہا کہ اسے کہہ دو کہ بڑھیا جنت میں جائیں گی لیکن جو ان ہو کر ۔ اللہ تعالی کی یاد میں ہمیشہ مگن رہتے اور دن کا بڑا حصہ نماز میں گزارتے۔ ایک بار آپ ﷺ ایک جنازے میں شریک تھے اور قبر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ بھائیو اس دن کے لیے سامان تیار کر رکھو۔
سبق 2: اپنی مدد آپ - مصنّف (سر سید احمد خان)
سبق کا خلاصہ
خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اس چھوٹے سے جملے میں اقوام اور افراد کے تجربات کا نچوڑ جمع ہے ۔ اس مقولے پر جو انسان یا قوم عمل پیرا نہ ہو وہ عزت سے محروم اور ذلیل ہو جاتی ہیں تمام تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ کسی ملک کی خوبی و معدگی اور قدرو منزلت بہ نسبت وہاں کی حکومت کے عمد ہ ہونے کے کو زیادہ تر اس ملک کی رعایا کے چال چلن ، اخلاق و عادت ، تہذیب و شائستگی پر مخصر ہے، کیوں کہ قوم مشخصی حالتوں کا مجموعہ ہے اور ایک قوم کی تہذیب ، در حقیقت ان مرد و عورت و بچوں کی شخصی ترقی ہے، جن سے وہ قوم بنی ہے۔ قومی ترقی مجموعہ ہے شخصی محنت شخصی عزت شخصی ایمان داری اور کا جب کہ قومی تنزلی مجموعہ ہے شخصی سستی شخصی بے عزتی شخصی بے ایمانی اور شخصی خود غرضی اور برائیوں کا۔ چوں کہ ہر شخص اور قوم اپنی اصلاح خود کر سکتی ہے، اس لیے بیرونی امداد کے سہارے بیٹھنا خام خیالی ہے ۔ ظالم آقا کا مطیع حقیقی غلام نہیں اور نہ ہی آمر بادشاہ کی رعایا بلکہ بد اخلاقی، خود غرضی، جہالت اور شرارت کا پیرو کار اور قومی ہمدردی سے نا واقف حقیقی غلام ہے ۔ ہم اپنی مدد آپ کی بجائے کسی خضر نما شخصیت کے منتظر رہتے ہیں ۔ عمل سے عاری کرنے والی یہ سوچ ہمیں انسان پرست بنا دیتی ہے۔ حقیقت میں ایسا ہونا قوت کی ہے اور اس کے نتائج انسان کو ایسا ہی حقیر بنا دیتے ہیں جیسے کہ صرف دولت کی پرستش سے انسان حقیر و ذلیل ہو جاتا ہے۔ انسانوں کی موجودہ ترقی یافتہ حالت نسل در نسل کے مسلسل کاموں کی وجہ سے ہے۔ مگر حیف ہماری قوم نے اپنی نا اہلی اور لکھے پن کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی محنت سے حاصل کی گئی جائیداد کو گوادیا۔ دوسروں کی زندگی ، سلوک اور چال چان پر نہایت زبر دست اثر پیدا کرنے کی صلاحیت شخصی چال چلن میں پوشیدہ ہے اور حقیقت میں یہی ایک نہایت اعلیٰ عملی تعلیم ہے۔ یہ تعلیم انسان کو انسانیت سکھلاتی ہے۔ اس تعلیم سے عمل انسانی، چال چلن شخصی خوبی اور قومی عزت حاصل ہوتی ہے۔ یہی علم ، وہ علم ہے جو انسان کو فرض شناس ، حقوق کی ادائیگی ، معاملات زندگی س کی انجام دینے اور اپنی عاقبت سنوارنے کے قابل بناتا ہے۔ علم کے بہ نسبت عمل اور سوانح عمری کی بہ نسبت عمدہ چال چلان آدمی کو زیادہ معزز بناتا ہے۔۔
سبق 3: کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ – مصنف (ڈپٹی نذیر احمد)
شامل کتاب اقتباس "کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ" ان کے ناول "توبتہ النصوح" سے مستعار ہے۔
مرکزی خیال
جھوٹ ، دھوکہ دہی اور خود فریبی کے نتائج ہمیشہ منفی اور شرمندگی کا باعث بنتے ہیں ۔ کلیم کی کہانی میں ، مرزا ظاہر دار بیگ نے خودکو امیر کبیر اور با ارخص ظاہر کیا لیکن درحقیقت وہ ایک دھوکے باز اور نا پسندیدہ شخص تھا۔ کلیم، جو اپنے خاندان کے ساتھ لڑ جھگڑ کر مرزا کے ساتھ رات گزار نے گیا، ایک سخت اور تلخ تجربے سے گزرا۔ کلیم کے عبرت ناک انجام سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کے ظاہری دعووں پر اعتماد کرنے کے بجائے حقیقت کو جانچنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، دھوکا دہی سے خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
خلاصہ
۔
سبق 4: نام دیو – مالی – مصنف (مولوی عبد الحق)
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 5: آرام و سکون – مصنف (امتیاز علی تاج)
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
(سبق 6: کُتبہ – مصنّف (غلام عبّاس
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 7: ابتدائی حساب – مصنّف (ابنِ انشاء
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 8: لڑی میں پروئے ہوئے منظر – مصنف (رضا علی عابدی)
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 9: بھیڑیا – مصنف (فاروق سرور
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 10: حوصلہ نہ ہارو آگے بڑھو منزل اب کے دور نہیں – مصنف (پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ)
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 11: حمد (نظم) – شاعر: مظفر وارثی
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 12: نعتِ رسولِ مقبول ﷺ (نظم) – شاعر: مولانا ظفر علی خان
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 13: محنت کی برکات (نظم) — شاعر: خواجہ الطاف حسین حالی
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 14: جاوید کے نام (نظم) – شاعر: علامہ محمد اقبال
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 15: پیامِ لطیف (نظم) – شاعر: شاہ عبد اللطیف بھٹائی
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 16: کرکٹ اور مشاعرہ (نظم) – شاعر: دلآور فگار
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 17: شہدائے پشاور کے لیے ایک نظم – شاعر: امجد اسلام امجد
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 18: فقیرا نہ آئے صدا کر چلے (غزل) – شاعر: میر تقی میر
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 19: سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا (غزل) – شاعر: خواجہ حیدر علی آتش
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 20: غم ہے یا خوشی ہے تو (غزل) – شاعر: ناصر کاظمی
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔
سبق 21: کاش طوفان میں سفینے کو اُتارا ہوتا (غزل) – شاعرہ: پروین فنا سید
اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے اشعار کو حمد کہا جاتا ہے۔
اس سبق کی تشریح
شاعر نے اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور نعمتوں کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔
نظم کی تشریح
حمد کے اشعار میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور انسان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ قاری شکرگزاری کی طرف راغب ہو۔